Cherreads

Chapter 11 - تیرے خاموش لب،میرا بےچین دل

Episode.11

تیز قدم، سانس تیز، دل کا دھڑکنا بے حساب، آتش نے بنکر کا دروازہ توڑ دیا زمین پر گرے لوہے کے ٹکڑوں کی آواز بھی اس کے دماغ میں دب گئی تھی اس کی آنکھیں صرف ایک چیز کو ڈھونڈ رہی تھیں 

"مہر۔۔۔۔'

 اور پھر اس کی نظر ایک کونے میں پڑی مہر پر گئی

 اس کی مہر،،،

ایک پل کے لیے اس کا سانس رکا مہر کا بدن بے جان آنکھیں ایک خوفناک اندھیرے میں ڈوبی ہوئیں تھیں چہرہ پھیکا سا مانگ میں بکھرے ہوئے بال اور سب سے ڈرواہٹ چیز اس کی چپ،،، آتش کا ذہن سن ہو گیا 

" مہر۔۔۔"

 وہ تیزی سے آگے بڑھا زمین پر گرتا لپکتا اس کے سامنے جھک گیا

" مہر۔۔۔"

 اس نے کانپتے ہاتھوں سے اس کا چہرہ اٹھایا گرم انگلیاں اس کی سرد جلد سے ٹکرا گئیں

 " مہر۔۔۔ مہر ، پلیز آنکھیں کھولو مہر"

 لیکن کچھ نہیں کوئی کوئی حرکت نہیں کوئی جواب نہیں کوئی چیخ نہیں ایک دم سے اس کے اندر ایک ایسی چیخ پھٹ گئی جو اس کے ہونٹوں سے نہیں نکل سکی اس کا دل دکھ سے بھرا جا رہا تھا 

" مہر پلیز میں آگیا ہوں آنکھیں کھولو"

 اس نے پھر زور سے اس کے گالوں کو تھاما لیکن اس کی مہر بالکل چپ تھی بالکل بے جان سی آتش کے ہوش اڑنے لگے دل ایک دم سے اتنا بھاری ہو گیا کہ سانس تک اٹک گیا

" نہیں نہیں مہر، تم چپ نہیں ہو سکتی پلیز آنکھیں کھولو تم کبھی چپ نہیں ہوتی"

 اس کا گلا رک گیا آنکھوں کے کونے گرم ہونے لگے سانسیں لرز گئیں آتش کی آنکھوں میں پانی آگیا

 وہ آتش زایان۔

 جو کبھی نہیں رویا تھا آج بکھر گیا تھا 

" میں نے کہا آنکھیں کھولو مہر"

 اس نے ایک آخری بار اس کا چہرہ تھپتھپایا لیکن کچھ نہیں کچھ بھی نہیں موت جیسا سناٹا

" میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا مہر"

اس نے بنا ایک اور سیکنڈ ضائع کیے مہر کو بازوں میں اٹھایا ایک پٹے کی طرح ہلکا بدن بے جان ہاتھ لیکن آتش نے اس کو مزید زور سے سینے سے لگا لیا جیسے اگر چھوڑ دیا تو وہ مزید بکھر جائے گی 

" مہر بس تھوڑی دیر اور۔۔۔۔"

 اس کی تیزی سے بھاگنے والے قدم بنکر کے دروازے سے نکلتے وقت ایک پل کے لیے بھی نہیں رکے تھے 

" کچھ نہیں ہوگا تمہیں ۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ کچھ۔۔۔۔"

☆☆☆

لیونگ روم میں ہلکا سا اندھیرا تھا صرف دو لیمپ تھے جو جل رہے تھے گھر کا ماحول کافی بھاری ہو رہا تھا زریاب ماتھا مسل رہا تھا اس کے چہرے پر بے بسی صاف دکھائی دے رہی تھی اتنی کوششوں کے بعد بھی مہر کا کوئی پتہ معلوم نہ ہو سکا تھا کہاں کہاں نہیں گیا تھا وہ مہر کی ساری فرینڈز ،ہاسپٹل، سارا دن سڑکوں پر گھومتا رہا تھا مشعل ایک کونے میں دکھی سی بیٹھی تھی عبید نے سگریٹ جلا رکھی تھی لیکن بس ہاتھ میں پکڑ کر بھول گیا تھا رضا صاحب بالکل خاموش، جیسے بولنا بھول گئے ہوں آتش صبح سے غائب تھا اور مہر کا ابھی تک کوئی اتا پتہ نہیں چل سکا تھا امان نے سب پر ایک نظر ڈالی اور بالکنی کی طرف بڑھ گیا باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی چاند آسمان کے ایک کونے سے جھانک رہا تھا عینی ریلنگ کے پاس کھڑی تھی تسبیح اس کے ہاتھوں میں بے اجازت گھوم رہی تھی امان دھیرے سے اس کے پاس آیا اور ہلکا سا ریلنگ سے لگ کر کھڑا ہو گیا 

" سب پاگل ہو رہے ہیں اندر اور تم یہاں اکیلی"

 امان کی آواز تھکاوٹ بھری تھی

" اکیلی نہیں ہوں دعائیں ہیں ساتھ۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر اللہ"

 عینی کی نظر چاند پر جمی تھی 

" تم ہمیشہ ہر جواب اتنا فلسفانہ کیوں دیتی ہو"

 ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ امان نے پوچھا نظریں ابھی بھی اس پر جمی تھی 

" کیونکہ سچائی کبھی سیدھا جواب نہیں دیتی"

اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی لیکن آنکھوں میں دکھ کی آمیزش تھی

" تمہیں لگتا ہے دعائیں سب کچھ بدل سکتی ہیں؟"

" بدل نہیں سکتی لیکن مصیبت آنے سے پہلے ہمیں تیار کر سکتی ہیں "

اب کی بار عینی نے امان کی طرف دیکھا 

" اور تم تیار ہو؟؟؟"

تھوڑی دیر چپ رہ کر امان نے گہری نظروں سے اسے دیکھا 

" کسی کی تقدیر کا نہیں پتہ ہوتا"

" بس امید رکھنی ہوتی ہے"

 عینی نے گہری سانس لی امان نے کچھ پل اس کی بات کو سوچا پھر دھیرے سے کہا

" لیکن امید صرف تب تک ہوتی ہے جب انسان کے پاس وقت ہو جب وقت ہاتھ سے نکل جائے تو افسوس رہ جاتا ہے "

عینی نے اس کی طرف دیکھا جیسے اس کے لفظوں کا مطلب سمجھ گئی ہو تھوڑی دیر کے لیے دونوں چپ ہو گئے صرف ہوا کی ہلکی آواز سنائی دیتی رہی اور تبھی امان کا فون بجا 

آتش کی کال،،،،

 اس نے ایک دم فون اٹھایا اور جیسے ہی سننا شروع کیا اس کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا آنکھوں میں شاک اور ٹینشن بھر آئی 

" مہر مل گئی ہے وہ ہاسپٹل میں ہے"

 اس کی آواز ایک دم تیز ہوئی تھی جیسے سانس رک گیا ہو سب ایک دم سکتے میں آگئے اور جیسے ہی بات سمجھ آئی سب تیزی سے اٹھے مگر رضا صاحب صوفے پر ایسے بیٹھے تھے جیسے کسی نے اندر سے جان نکال دی ہو طیبہ بیگم زور زور سے رونے لگیں مشعل ان کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی

" ماموں ہاسپٹل چلتے ہیں "

عبید بھائی آگے بڑھے

" مہر میری بچی "

وہ اٹھنے لگے تبھی لڑکھڑا گئے عبید نے انہیں سنبھالا زریاب تیزی سے ان کے پاس آیا 

" سب ٹھیک ہو جائے گا بابا سب ٹھیک ہے"

ذریاب نے مضبوطی سے ان کا ہاتھ تھام لیا انہوں نے ہولے سے سر ہلا دیا

☆☆☆

ہاسپٹل کے ایمرجنسی وارڈ میں صرف بیپنگ مشین اور دم گھٹنے والی خاموشی تھی آتش وہاں کھڑا تھا مہر آئی سی یو میں تھی اس کی سانس چل رہی تھی مگر وہ بے ہوش تھی ڈاکٹر نے رپورٹ آتش کے ہاتھ میں دی

" پیشنٹ کو بہت ہی زیادہ فزیکل اور ایموشنل ٹراما دیا گیا ہے اس کے جسم پر گہری چوٹوں کے نشان ہیں اس کا گلا اتنا دبایا گیا ہے کہ وہ ایک وقت تک آواز بھی نہیں نکال پائے گی یہ سب جانوروں جیسا برتاؤ تھا مسٹر آتش "

آتش کا دل ایک جھٹکے سے بند ہوا اس کا بس چلتا تو ڈاکٹر کا ہر لفظ سنائی دینا بند کر دیتا آواز چلی گئی؟ مہر اب نہیں بولے گی؟ اس کا جسم کس حال میں تھا؟ آتش نے دھیرے سے رپورٹ کو دیکھا ہر لفظ کے ساتھ اس کی آنکھوں میں خون اترتا گیا 

" جس نے بھی یہ سب کیا ہے وہ انسان کہنے کے لائق نہیں "

ڈاکٹر کی بات اب بھی چل رہی تھی لیکن آتش اب کچھ نہیں سن رہا تھا اس کے دل میں صرف ایک آگ تھی مہر کا وہ بے جان بدن اس کا چپ چاپ پڑا رہنا آتش کی آنکھیں سرخ ہوتی گئی ماتھے کی رگیں تن گئی اچانک پیچھے سے اسے بہت سے قدموں کے بھاگنے کی آواز آئی سب آ چکے تھے اس نے رک کر ان سب کی طرف دیکھا تھا اور ان کے قریب پہنچتے ہی وہ بنا کسی سے ایک لفظ کہے آگے بڑھ گیا 

" اریس " 

وہ اب زندہ نہیں بچے گا

☆☆☆

مشعل جب سے ہاسپٹل سے آئی تھی بس روئے جا رہی تھی اس کا دل بے چین تھا ذریاب نے کوشش کی کہ اسے سمجھائے مگر وہ تھی کہ مان کے نہ دے رہی تھی وہ بیڈ کے ایک کونے پر بیٹھی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے زریاب کا دل بے چین ہونے لگا اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے قریب کر لیا

" مشعل بس اب رونا بند کرو پلیز یار !"

" ہم مہر کو چھوڑ کر کیوں آگئے اس کو ہمیں وہاں اکیلے چھوڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا اس نے کتنا کچھ سہا ہوگا اس کا کیا حال ہو رہا ہوگا "

اس کی آواز ٹوٹی ہوئی تھی آنسو موتیوں کی صورت آنکھوں سے گال پر پھسلتے گئے

" تم سمجھتی کیوں نہیں ہو آتش اس کے ساتھ ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ اس کے لیے کیا کچھ نہیں کرے گا "

ذریاب نے اس کا ہاتھ تھام لیا 

" لیکن زریاب اگر اسے کچھ ہو گیا تو؟"

 آنسو پوچھتے ہوئے اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا

" مجھ پر بھروسہ ہے نہ "

ذریاب نے انگلیوں سے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا مشعل نے اثبات میں سر ہلایا 

" میں بھی مہر کے لیے بہت پریشان ہوں لیکن تم اگر اس طرح روتی رہی تو مجھے سمجھ نہیں آئے گا کہ تمہیں سنبھالوں یا اپنے جذبات کو"

 ذریاب نے دھیمے لہجے میں کہا مگر وہ پھر بھی چپ نہیں ہوئی روتی رہی زریاب نے اسے مزید قریب کر لیا

" مشعل بس ایک بار میری بات سنو بس ایک پل کے لیے، مہر گھر آ جائے گی اور جب وہ واپس آئے گی، تو اگر اس نے تمہاری یہ حالت دیکھی تو وہ سب سے پہلے تمہیں ڈانٹے گی کیا تم چاہتی ہو کہ وہ ہمیں دکھی دیکھے؟"

 دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھامے وہ بول رہا تھا مشعل کی آنکھوں سے ابھی بھی خاموش آنسو گر رہے تھے زریاب نے اس کا ماتھا چوما پھر اس کے بال انگلیوں سے پیچھے کیے

" تم روتی ہو نا تو لگتا ہے جیسے سب کچھ اندھیرا ہو گیا ہو اور جب تم مسکراتی ہو تو لگتا ہے جیسے صرف تمہاری روشنی سے دنیا چمک رہی ہو "

اس کے سینے سے لگے وہ بالکل خاموش ہو گئی جیسے ذریاب کی باتیں اب ایک مرہم کی طرح کام کر رہی ہوں 

" تمہیں پتہ ہے مشی! میں سب سے زیادہ کس چیز سے ڈرتا ہوں"

 ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے گہرے لہجے میں کہا مشعل نے بھیگی پلکیں اٹھا کر اس کو دیکھا 

" کس سے ؟"

ایک پل کے لیے زریاب نے اس کی آنکھوں کو دیکھا پھر نرمی سے اس کی دونوں آنکھوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوا 

" تمہاری آنکھوں کے آنسوؤں سے، کیونکہ جب تم روتی ہو نا تو مجھے لگتا ہے جیسے میرے دل کا کوئی حصہ بکھر رہا ہو "

مشعل نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جیسے سب کچھ رک سا گیا ہو اس کا دکھ اس کی بے چینی سب جیسے صرف ذریاب کی بانہوں میں سکون بن گیا ہو 

" اور جب میں نہیں روتی تو؟"

مشعل نے دھیرے سے پوچھا زریاب نے ایک لمحہ اس کی آنکھوں میں دیکھا پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگایا 

" تو پھر لگتا ہے جیسے زندگی پوری ہو گئی ہو"

 وہ بے اختیار مسکرائی تھی جیسے ساری پریشانی کہیں دور بھاگ گئی ہو 

" چلو سو جاؤ رات بھی کافی ہو گئی ہے"

 ذریاب نے نرمی سے کہا 

" تم نہیں سو گے کیا ؟"

اس نے چہرہ اٹھا کر پوچھا 

" اگر تم کہو گی تو نہیں سوؤں گا "

مسکراہٹ دبائے زریاب نے اسے چھیڑا 

" اب ایسا بھی نہیں کہا میں نے"

 اس سے الگ ہو کر اس نے رضائی سر تک تان لی ذریاب نے تیزی سے رضائی اس کے چہرے سے ہٹائی 

" اگر میں کہوں تو؟"

 اس کا لہجہ شرارتی تھا 

" زریاب!"

مشعل نے گھورا اور پھر رضائی سر تک تان لی وہ دھیرے سے مسکرا دیا

☆☆☆

اریس بے چینی سے اپنے کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا اس کی آنکھوں میں غصہ تھا جنون تھا جو دھیرے دھیرے پاگل پن میں بدل رہا تھا اس کی حالت ایسی تھی جیسے شکار اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہو اور ایسا ہی ہوا تھا 

" نہیں ۔۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا مہر ایسے کیسے بچ سکتی ہے ؟ آتش۔۔۔ آتش بھلا اس کے پاس کیسے پہنچ سکتا ہے"

 وہ تقریبا پاگل ہو رہا تھا اس نے ٹیبل سے گلاس اٹھایا اور زور سے زمین پر پٹخ دیا تبھی اس کی نظر ٹیبل پر موجود ایک اور شے پر پڑی تھی وہ یکدم خاموش ہو گیا

" آتش زایان ۔۔۔۔ تم سمجھتے ہو کہ تم جیت گئے ہو"

 آہستہ آواز میں وہ خود سے بڑبڑایا 

" نہیں ابھی کھیل ختم نہیں ہوا "

وہ ہلکا سا ہنسا۔ اس کے ہاتھ ابھی بھی کانپ رہے تھے مگر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پھیل چکی تھی جیسے کوئی بکھرا ہوا پزل اب مکمل ہو گیا ہو اس نے ٹیبل پر رکھا ایک پیپر اٹھایا 

" اب دیکھتے ہیں مہر تمہیں کیسے گرایا جائے "

اس نے دھیرے سے کہا اس کا دماغ نئے طریقے سوج رہا تھا ایسا طریقہ جو مہر کا سب کچھ چھین لے بنا کسی شک کے۔

☆☆☆

ہسپتال کا کمرہ، رات کا وقت، مدھم روشنی اور ایک عجیب سی خاموشی جو صرف ہارٹ بیٹ مونیٹر اور آئی وی ڈرپ کی آواز سے ٹوٹ رہی تھی آنکھیں کھولنے سے پہلے اسے ایک عجیب سی گھبراہٹ محسوس ہوئی تھی جیسے کہیں دور کو اس کا نام پکار رہا ہو اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولی سب کچھ دھندلا تھا سفید پردے بیپنگ مشین اور اور آتش اس کے بالکل پاس بے حد نزدیک ایک چیئر پر اس کے سرہانے کے بالکل قریب جھکا ہوا گہری نیند میں۔ مہر کو اپنے ہاتھ کی پشت پر گرم پن محسوس ہوا اس نے نظریں جھکا کر دیکھا آتش نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا جیسے اگر چھوڑا تو وہ پھر سے کہیں کھو جائے گی لیکن یہ سب کیسے ہوا؟؟ وہ تو بنکر میں تھی۔ اریس؟ اس کے دماغ نے ایک دم جھٹکا کھایا بس ایک لمحہ اور اسے سب کچھ یاد آتا گیا۔۔۔ اندھیرا، لوہے کی بو، اریس کا وہ ذلیل مسکرانا ، اس کے ہاتھ کی طاقت اور پھر ایک دم سب کچھ غائب ہو گیا۔ تو پھر وہ بچی کیسے ؟ آتش کیسے آیا اس نے اسے کیسے ڈھونڈا تھا ؟ اس نے زور سے سانس اندر کھینچا آتش کے ہاتھ کی گرفت تھوڑی ہلی اور جیسے ہی آتش نے آنکھیں کھولیں وہ سیدھا مہر کی آنکھوں سے ٹکرا گئیں ایک لمحہ بس ایک لمحہ، پہلے خاموشی چھائی، پھر شاکڈ، پھر بے یقینی اور پھر سکون کا ایک گہرا سایہ 

" مہر ۔۔۔۔"

آتش نے دھیمی آواز میں اس کو پکارا جیسے یقین نہ آ رہا ہو مہر بس اس کو دیکھتی رہی اس کا دماغ ابھی بھی یہ سوچنے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ سچ ہے یا پھر کوئی خواب ہے وہ بولنا چاہتی تھی اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ کیسے بچی وہ کیسے اس کو ڈھونڈ پایا لیکن اس کے ہونٹ ہلے مگر کوئی آواز نہیں نکلی ایک بھی لفظ نہیں اور وہ لمحہ وہی جم گیا آتش کی آنکھوں نے غور سے اس کو دیکھا اس کو سمجھنے میں صرف ایک سیکنڈ لگا تھا مہر بول نہیں سکتی مہر کا چہرہ ایک دم پیلا پڑا اس کا تنفس تیز ہونے لگا 

" آتش "

اس نے پھر سے کچھ کہنے کی کوشش کی، اس کا نام پکارنے کی کوشش کی لیکن صرف ہوا۔۔۔۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے لیکن کوئی آواز نہیں نکل پا رہی تھی اور پھر اس کے آنکھوں سے آنسو گرنے لگے وہ پینک ہونے لگی اس کی سانس تیز ہو رہی تھی ہاتھ بری طرح کپکپا رہے تھے آتش نے تیزی سے آگے ہو کر اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام لیا

" مہر میری بات سنو۔۔"

 اس کی آواز گہری۔ درد میں ڈوبی ہوئی تھی

" نہیں۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔"

مہر صرف زور سے سر ہلا گئی اس کی آنکھوں میں صرف ایک چیز تھی 

ڈر ،

اریس پھر سے آ جائے گا وہ اس کو پکڑ لے گا وہ پھر سے اسے لے جائے گا اور اس بار آتش بھی اس کو بچا نہیں پائے گا وہ اسے مار دے گا وہ چلانا چاہتی تھی اس کو بتانا چاہتی تھی کہ اریس نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ مگر وہ بول نہیں پا رہی تھی اس کی سانس پھولنے لگی اس کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ دھندلا ہونے لگا تبھی ایک گہری اور ٹھنڈی آواز نے اس کو واپس کھینچ لیا 

" کوئی بھی تم تک نہیں پہنچ سکتا مہر "

آتش کا ہر لفظ ٹھوکر بن کر گرا تھا مہر ایک دم رکی مگر اس کی آنکھوں میں ابھی بھی خوف دکھ رہا تھا اس کا چہرہ مضبوطی سے تھامے آتش نے مہر کو سیدھا بٹھا دیا خود کرسی سے اٹھ کر اس کے بالکل پاس بیٹھا اس کے بالکل قریب آتش کی انگلیوں کی گرماہٹ مہر کی خاموش چیخوں سے ٹکرا گئیں وہ سانس لینا بھول گئی آتش کی گہری بھوری آنکھیں جیسے اس کے دل کے اندر تک اتر رہی ہوں اتنی گہری کے مہر کی آنکھیں اپنی جگہ جم سی گئی

" جب تک میں ہوں کوئی تم تک نہیں آئے گا"

 مہر کا دل رکنے لگا اس نے لب کھول کر کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن کچھ کہہ نہ پائی اس کی آنکھیں پھر سے بھرنے لگی

" شش۔۔۔۔"

 آتش نے دھیرے سے کہا 

" میں یہاں ہوں مہر تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا"

 مگر وہ تھی کہ چپ نہیں ہو رہی تھی جیسے اسے آتش کی کسی بات پر یقین نہ ہو ڈر اور خوف سے اس کا جسم جھٹکے کھانے لگا اس کے دل کی رفتار کافی حد تک تیز ہو چکی تھی آتش نے تیزی سے اس کے گرد بازووں کا حصار باندھ دیا 

" مہر ریلیکس ہو جاؤ کوئی نہیں ہے کچھ نہیں ہے خاموش ہو جاؤ میں ہوں تمہارے پاس"

 وہ بہت نرمی سے اس کے بال سہلا رہا تھا پھر اس نے اس کے سر پر ہونٹ رکھ دیے ایک گہری سانس بھری جیسے ایک گرتی ہوئی دنیا کو روک رہا ہو اس کی شرٹ مہر کے آنسوؤں سے بھیگنے لگی تھی مہر نے آنکھیں بند کرتے اس کو کہتے سنا تھا 

" مجھے تم سے صرف تمہاری آواز نہیں چاہیے تھی مہر مجھے صرف تم چاہیے تھی اور تم میرے پاس ہو بس اور کچھ نہیں چاہیے"

 اس کا ڈر کم ہوا تھا یا نہیں مگر آنسو ہنوز ابھی بھی گر رہے تھے آتش کے الفاظ جیسے مہر کے دل کے اندر اترتے گئے وہ اس کے سینے سے لگی بے حال ہو رہی تھی لیکن اب اس کے آنسوؤں میں پہلے جیسی گھبراہٹ نہیں تھی جیسے آتش کی بانہوں نے اس کے ڈر کا بوجھ ہلکا کر دیا ہو

" مہر۔۔۔"

 اس نے ہلکا سا کہا لیکن مہر صرف اپنی سانس سے اس کو اپنے وجود کا احساس دلا گئی آتش نے مزید اس کو خود میں چھپا لیا جیسے اس کے اندر کی ساری بے چینی کھینچ لینا چاہتا ہو اس نے اپنا چہرہ پیچھے کیا مہر کا چہرہ اپنی آنکھوں کے سامنے کیا اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو انگوٹھے سے صاف کیے مہر نے دھیرے سے اپنی بھیگی پلکیں اٹھائیں آتش نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ دی لیکن اس کے چہرے پر دکھ بھی تھا 

" مہر۔۔"

 اس نے دھیرے سے کہا 

" تمہاری آواز واپس آ جائے گی"

مہر کی آنکھیں ایک پل کے لیے نرم ہوئی لیکن پھر؟؟؟ پھر سے نمی بھر گئی آتش نے پھر سے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیا

" اور اگر نہ بھی آئی تو کیا؟ تمہاری آنکھیں سب کہہ دیتی ہیں مہر"

 مہر کے آنسو پھر سے گالوں پر بہہ گئے اور وہ دھیرے سے ۔۔۔۔ ایک دم اس کی بانہوں میں چھپ گئی جیسے یہی جگہ اس کی اصل پناہ گاہ ہو 

" تم صرف میرے پاس رہو باقی دنیا سے لڑنے کے لیے مجھے صرف تمہاری یہاں ہونے کی ضرورت ہے "

مہر نے مزید اپنا سر اس میں چھپا لیا ایک بے چینی جو دھیرے دھیرے سکون میں بدل رہی تھی

☆☆☆

مہر کو چوتھے دن ہوش آیا تھا مزید دو دن ہاسپٹل میں رہنے کے بعد وہ گھر آ چکی تھی گھر میں سب اس کا اس طرح خیال رکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی چھوٹی سی بچی ہو طیبہ بیگم اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں مشعل ہر وقت اس کے پاس بیٹھی رہتی زریاب اس کے لیے ڈاکٹرز سے مشورے کرتا پھرتا عینی اس کے کپڑے سنبھالتی ایمل اس کے بال بناتی اور مومنہ بس کھاتی اور بولتی رہتی مہر بالکل چپ بنا مسکراہٹ کے ساتھ اس کو سنتی رہتی وہ کیا سوچ رہی ہے آتش کو معلوم نہ ہو سکا امان اس سے مذاق کرنے کی کوشش کرتا تاکہ وہ مسکرائے لیکن مہر؟ مہر کا دل تو ان سب چیزوں میں تھا ہی نہیں اس کا سارا دھیان صرف ایک شخص پر تھا جو ان سب سے زیادہ خاموشی سے اس کا حد سے زیادہ خیال رکھ رہا تھا یہ سب مہر کے لیے نیا تھا اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ آتش اس سے نفرت کا دعوی کرنے والا اس پر ہر وقت غصہ کرنے والا چلانے والا اس طرح خاموش ہو جائے گا وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اتنا کیوں بدل گیا ہے اسے اس کے بدلے رویے سے عجیب سی قسم کی گھبراہٹ ہونے لگی تھی اہ کاش وہ بات کر سکتی کوئی ایک لفظ اس کو کہہ سکتی پوچھ سکتی، اس سے مگر وہ بس مہر کے قریب رہتا بنا کچھ کہے وہ ہر وقت اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھ رہا تھا وہ بس خاموش نظروں سے اس کو دیکھتی رہتی اور سوچتی رہتی آتش کی ہر روز تہمینہ بیگم سے بہت ہوتی تھی۔ اور کیا بات ہوتی تھی یہ مہر کو کبھی معلوم نہ ہو سکا آتش اپنی ہر کال مہر کے سامنے ہی اٹینڈ کرتا تھا لیکن جب تہمینہ بیگم کی کال آتی وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر چلا جاتا بات کرنے کے بعد وہ واپس آ کر موبائل مہر کی طرف بڑھا دیتا مہر خاموشی سے پکڑ لیتی تہمینہ بیگم سے ویڈیو کال پر بات کرنے کے بعد وہ اسی خاموشی سے آتش کو اس کا فون واپس لوٹا دیتی آتش کا دل بند ہونے لگتا کیونکہ اسے لگ رہا تھا مہر کی آواز سنے صدیاں بیت گئی ہوں لیکن مہر کی آنکھیں تھیں جو ہر وقت بولتی تھیں آتش اس کی آنکھوں کو ایسے پڑھتا جیسے حفظ کر چکا ہو وہ اس کے ہر ری ایکشن سے اس کو سمجھ جاتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے کیا کرنا چاہتی ہے کہاں جانا چاہتی ہے اور اس سے کیا پوچھنا اور کیا سننا چاہتی ہے اور وہ نظریں چرا جاتا اور یہی بات تھی جو مہر کو مزید پریشان کرتی

 جو اس کی آواز سننے کا روادار نہ تھا وہ اس کے بن بولے سمجھ جاتا تھا

Continue

.Meher ki kidnapping ke chand din baad, Atish ko ek purani gas station ke paas kuch clues milte hain jo usse Meher tak le jaate hain. Waqt se pehle uska dil usse is taraf kheench laata hai — aur wahiin ek andhera, thanda bunker hota hai jahan Meher behosh padhi hoti hai.

Atish us bunker mein utarta hai, aankhon mein bepanah gussa aur bechaini liye hue. Jaise hi uski nazar Meher par padti hai, uska ego, uska ghamand, uska pura wajood uss pal pighal jaata hai.

Atish Meher ko sambhalta hai, lekin uske chehre par guilt aur shock saaf nazar aata hai.

Duniya ke liye Atish Zayan rude aur cold tha, lekin Meher ke liye uska chehra pehli baar kisi aur hi dard se bhar gaya.

Doosri taraf, Mashal apne guilt aur pareshaani mein ghiri hoti hai, aur Zaryab uske liye khud ko neecha dikhane se bhi nahi katraata. Amaan aur Aeni bhi Atish ke lafzon ke baad khamosh ho jaate hain — pehli baar unke wajood ka ghamand chhant chuka hota hai.

Atish Meher ko bahar le jaata hai, aur us raat sirf ek dil ka zakhm nahi bhar raha hota — sabhi rishte naye modh par aa jaate hain.....

More Chapters